سید مقبول عالم نے ادھے کے بیل کھلوائے اور گاڑی بان کو چاندی کا ایک سکہ دے کر کہا:
”تمہارے دوپہر کے کھانے اور بیلوں کے راتب اور گڑ کے اخراجات“ پیتے کی چٹنی کے مرتبان اور چونسا آم کی پیٹی ملازم نے سر پہ رکھ لی تھی۔ چاندنی چوک کے پاس نم گھاس کے اس قطعے سے بلی ماران اور پھر گلی قاسم جان تک راستہ کس سمت میں ہے اور کتنی مسافت ہے، یہ بات چودھری عبدالغفور نے مارہرے سے نکلتے وقت اتنی مرتبہ سمجھائی تھی کہ از بر ہو چکی تھی۔
بوڑھے ملازم نے جب اندر خبر کی تو فوراً طلبی ہوئی۔ دالان نما مستطیل کمرے میں پلنگ پر لیٹے اس شخص نے اُٹھنے کی کوشش کی اور کامیاب بھی ہو گیا۔ اس وقت سر پر ٹوپی نہیں تھی لیکن ضعف کے باجود وجاہت نے ابھی اس وجود سے کنارہ نہیں کیا تھا۔
”آداب تسلیمات“ سید مقبول عالم نے قدرے جھک کر کچھ بلند آواز میں کہا جیسے انہیں شبہ ہو کہ غالب کی سماعت وقت کی گزران کے ساتھ اب کمزور ہو چکی ہوگی۔ انہیں حیرت ہوئی کی غالب نے ان کی آواز کی بلندی پر چہرے کے تاثرات کے ذریعے تعجب کا خفیف سا اظہار کیا تھا۔ سید مقبول عالم کو خفت کا احساس ہوا جو جلد ہی ختم بھی ہو گیا کہ غالب نے ان کے دونوں ہاتھوں کو اپنے دراز انگشت ہاتھوں میں پکڑ کر اپنے ماتھے سے لگالیا تھا۔
”مرشد کا حال بتاؤ صاحب زادے میاں“
”الحمد اللہ بخیر ہیں۔ رخصت کے وقت فرما رہے تھے کہ اپنے چچا سے کہنا وہ ہمیشہ وعدۂ فردا پر بہلاتے رہے اور ہم بہلتے رہے مارہرہ کے آم اور بیر کھانے ہمارے پاس کبھی نہ آئے ۔“
”بیٹھ تو جاؤ“ بیٹے غالب نے ایک آہ سر کھینچی، پھر خاموشی کے ایک مختصر وقفے کے بعد گویا ہوئے۔ ”اس کی تفصیل بعد میں۔ یہ بتاؤ دوپہر کا کھانا کتنی دیر بعد کھاؤ گے؟“۔
”چچا صاحب گھر سے سوکھی خوراک باندھ کر نکلے تھے۔ آخری مرتبہ تب کھایا جب آڈھا قلعے کے سائے میں آچکا تھا۔ واللہ قطعاً بھوک نہیں ہے۔“ ملازم نے جب آموں کی پیٹی اور پیتے کی چٹنی کے مرتبان لاکر رکھے تو سید مقبول عالم نے دیکھا کہ پلنگ کے سائے میں داہنی کروٹ پر چوکی لگی تھی اور اس سے لگی ہوئی سلفچی بھی۔ انہوں نے یہ بھی دیکھ لیا کہ تکیے کے پاس کاغذوں کا دستہ اور قلم دوات بھی رکھے تھے اور ایک کاغذ کے کچھ حصے پر کوئی تحریر بھی لکھی تھی۔ وہ تحریر مسلسل تھی اس لیے شعر تو نہ ہوں گے، غالبا کسی کو خط لکھنا شروع کیا تھا۔
برابر میں لکڑی کا ایک چھوٹا سا صندوق بھی تھا جس میں تانبے یا پیتل کا قفل لگا ہوا تھا۔
سید مقبول عالم دل ہی دل میں مسکرائے۔ اس صندوق میں کیا ہو سکتا ہے، اس کے بارے میں چودھری عبدالغفور سے سن چکے تھے۔
”چودھری عبدالغفور نے خط کے ذریعے مطلع کر دیا تھا کہ تم آ رہے ہو، لیکن تمہاری آمد کی تاریخ روز فردا کی تھی۔ مجھے آج تمہارے آنے کی امید نہیں تھی بیٹے ۔“
”چچا صاحب ! پہلے ارادہ تھا کہ کول میں رک کر اپنے ایک قریبی عزیز کی عیادت کروں گا پھر بزن میں اپنے ایک دوست کے گھر ایک شب قیام کروں گا۔ لیکن آپ کی زیارت کی ایسی لو لگی تھی کہ دونوں ارادے واپسی کے سفر تک ملتوی کیے اور بغیرر کے دہلی آ گیا۔ نیند بھی ادھے کے ہچکولوں میں پوری کی ۔“
”ہمیں دیکھ کر تو تمہارا سارا بھرم ٹوٹ گیا ہوگا۔ بہت مایوسی ہوئی ہوگی ؟“۔
”غالب نے مسکرا کر پوچھا تھا۔ استغفر اللہ چچا صاحب ! آپ کو دیکھ کر لگا جیسے اپنے خاندان کے کسی بزرگ کو دیکھ رہا ہوں۔“ یہ کہتے ہوئے سید مقبول عالم نے غالب کے گھٹنے چھوئے۔
”گناہ گار نہ کر وسید زادے!“
”والد محترم نے یہ حقیر سے نذرانے آپ کی خدمت میں پیش فرمائے ہیں۔ اپنے باغ کے چونسا آم ہیں جو دو روز بعد پک کر کھانے کے قابل ہوں گے۔ پیپتے کی چٹنی ہے جو ہمارے قصبے کی قدیم سوغات ہے۔ جو صاحب اس کو تیار کرتے ہیں وہ چودھری عبدالغفور سرور مارہروی کے پڑوس میں رہتے ہیں اور سال کے بارہ مہینے یہ چٹنی تیار کرتے ہیں۔“
”واللہ ! مرشد کے آموں نے باغ باغ کر دیا اور مارہرہ کے پہیتے کی چٹنی کا شہرہ پہلے بھی سن چکا ہوں ۔ آج ہی رات اس مرتبان کا استعمال کروں گا اور بطور دوا کم کم مقدار لیا کروں گا کہ پیر و مرشد کی عطا دیر تک میرا ساتھ دے۔“
سید مقبول عالم نے مسکرا کر دبے الفاظ میں کہا: ”آموں کے ساتھ باغ باغ اور چٹنی کے مرتبان کی رعایت سے دوا کا لفظ ۔ سبحان اللہ ۔ واپسی پر جب یہ دو جملے کسی کو سناؤں گا تو اسے یقین آجائے گا کہ حضرت اسد اللہ خان غالب کے قدموں میں بیٹھ کر آرہا ہوں۔“
غالب کے چہرے پر اک ذرا سرخی آگئی اور خفیف سے تبسم کے ساتھ شفقت بھری نگاہ سے نو جوان مسافر کو دیکھا جو مارہرہ کے بزرگ صوفی زیدی سادات کے گھرانے کے چشم و چراغ حضرت صاحب عالم صاحب کا بیٹا ہے جنہیں وہ پیرو مرشد کہہ کر اپنے خطوط میں یاد کرتے ہیں۔ غالب کے علم میں یہ بھی تھا کہ سید مقبول عالم کو شعر و ادب کا بہت عمدہ ذوق ہے اور وہ خود بھی شعر کہتے ہیں۔
اب سید مقبول عالم نے غور سے دیکھا۔ محرابوں پر پردے تھے اس لیے دالان کی اشیاء اور اشخاص کو خوب اچھی طرح دیکھنے کے لیے انتظار کرنا پڑتا کہ کسی کی آمد سے پردہ کچھ ہٹے اور روشنی اندر آئے ۔ سید مقبول عالم نے غالب کی صورت اور کاغذ پر لکھی تحریر اس وقت دیکھی تھی جب ملازم آم کی پیٹی لے کر اندر داخل ہوا تھا۔ اور غالب نے سید مقبول عالم کا سراپا اس وقت دیکھا جب غالب کا ملازم کشتی میں فالسے کا شربت اور خستہ نمک پارے لے کر اندر آ رہا تھا۔
سید مقبول عالم کا سر بڑا ، چہرہ کتابی ، آنکھیں روشن اور پیشانی کشادہ تھی۔ ہونٹ پہلے پہلے اور بالکلگلابی تھے۔ مختصر سیاہ داڑھی تھی اور مونچھیں دبیر تھیں۔ بدن چھریرا اور سینہ چوڑا تھا۔ اوپری بدن پر قدرے موٹی ململ کا انگر کھا تھا جس کی وضع دہلی سے مختلف تھی۔ انگر کھے میں سینے کے پاس آسمانی رنگ کا مہین کرتا نظر آتا تھا، جو موسم کے لحاظ سے بہت مناسب تھا۔ سید مقبول عالم چونکہ غالب کے پلنگ کی پٹی کے پاس پڑے نھیں مونڈھے پر بیٹھے تھے اس لیے غالب یہ نہیں دیکھ سکے کہ ان کا پاجامہ سادہ ہے یا دھاریوں دار۔ یوں بھی غالب بہت غور سے سید مقبول عالم کے سراپے کا جائزہ نہیں لینا چاہتے تھے۔ بس ایک چھلتی سی نگاہ ڈالی تھی۔ جب غالب ان کو مخاطب کرتے تو وہ سید مقبول عالم کی آنکھوں میں دیکھتے اور جب سید مقبول عالم ان کی بات کا جواب دیتے تو غالب ان کے ہونٹوں پر نظر جمائے رکھتے تھے۔ گفتگو کرتے وقت مخاطب کی آنکھوں اور ہونٹوں کو دیکھنے کی ترتیب کی یہ تربیت غالب نے خود اپنے آپ کو دی تھی۔ صاحب زادے ایک بات بتاؤ کیا حضرت صاحب عالم صاحب کے جلوے اور تمہاری شکل میں یکسانیت نہیں ہے؟ چودھری عبدالغفور سے کرید کرید کر پیر و مرشد کے خدو خال کے بارے میں پوچھتا رہا ہوں۔
سید مقبول عالم نے تبسم کیا اور کہا :
”اکثر اعزہ بتاتے ہیں کہ میں ان کی شکل پر پڑا ہوں ۔ البتہ وہ قد میں مجھ سے دراز ہیں ۔“
”کیا تم نے خود بغوران کا چہرہ مبارک نہیں دیکھا؟“
غالب نے حیرت سے پوچھا:
”دیکھا ہے چچا صاحب! البتہ اتنی دیر تک نہیں دیکھ پاتا کہ ان کی شکل دیکھ کر اپنی صورت ملا سکوں ۔“
یہ سن کر غالب دیر تک سید مقبول عالم کے ہونٹوں کو دیکھتے رہے۔
”چچا صاحب کیا فکر سخن فرمارہے تھے؟۔“ سید مقبول عالم نے کاغذ کے دستے کی طرف اشارہ کیا۔
”احمد حسین بینا کو خط لکھ رہا تھا۔ البتہ ایک مثنوی شروع کی ہے۔ ابھی صرف مطلع کہا ہے ۔“
”میرا ایسا نصیب کہاں کہ آپ کی زبانِ مبارک سے وہ مطلع سن سکوں۔“
سید مقبول عالم نے سر جھکا کر کہا۔ صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ یہ حسن طلب ہے۔
غالب مسکرائے۔
اس کنگلے فقیر کے پاس تمہیں دینے کو ہے ہی کیا ؟ ۔ لوسنو۔
آگے وہ نسیم نو بہاری
پیچھے یہ غبار خاکساری
”سبحان الله ! چچا صاحب۔ کس سادگی سے قافیہ نبھایا ہے۔ اپنے احباب کو یہ مطلع سناؤں گا تو مجھ پر پر رشک کریں گے کہ میں نے براہ راست حضرت کی زبانِ مبارک سے سنا ہے۔ معافی کا وعدہ فرمائیں تو خاکم بدہن دل میں ایک وسوسہ سا آ رہا ہے، اس کا اظہار کر دوں۔“
”بے تکلف کہو صاحب زادے میاں“ لیکن یہ کہتے ہوئے غالب کے چہرے کا رنگ بدل گیا تھا۔ ”چچا صاحب ! موسم کے اعتبار سے اس شعر کے الفاظ اور معنی میں مناسبت نہیں ہے۔ جب بہار کی آمد آمد ہوتی ہے اور صبح کی ٹھنڈی ہوا چلتی ہے تو فرش گیتی نم ہوتا ہے اور خاک کا نام و نشان نہیں ہوتا۔ یعنی غبار کا ہونا محال ہے۔ میری دوسری جھجھک یہ ہے کہ یہ شعر آپ کے مزاج سے لاگ نہیں کھاتا۔ آپ نے تو فرمایا تھا:
الٹے پھر آئے در کعبہ اگر وانہ ہوا
”جو شخص کعبے کے دروازے سے الٹا پھر آیا ہو وہ بھلا غبار خاکساری کیوں کر . بنے گا۔“
یہ کہہ کر سید مقبول عالم نے سر جھکا لیا اور اتنی دیر تک جھکائے رکھا گویا اب کبھی سر نہ اٹھائیں گے۔ غالب ان کے سراپے کو دیکھتے رہے اور انہوں نے یہ بھی محسوس کر لیا تھا کہ نو جوان عزیز اعتراض کے بعد ملول ہو رہے ہیں۔
غالب نے بشاشت کے لہجے میں کہا:
”واللہ تم سچ کہتے ہو۔ تم مارہرہ کے باشندے ہو جو چاروں طرف سے کھیتوں ، باغات اور جنگلات سے گھرا ہوا ہے۔ موسموں کی آمد و رفت اور ان کی مختلف کیفیات کا جو علم تمہیں ہے، مجھے کیوں کر ہوگا کہ ایک بڑے شہر میں پیدا ہوا۔ نو جوانی میں آگرہ سے دتی آ گیا۔ یہ بھی بڑا شہر ۔ پھر جو اسفار کیے وہ کلکتہ کے سفر کے دوران کیے اور سارے مرحلوں پر شہر ہی شہر تھے۔ لکھنو ، باندہ، الہ آباد، بنارس ۔ رام پور میں جب قیام کیا تو وہ حصہ بھی آبادی کے عین درمیان ۔ تم قصبے کے شرفاء ہم شہر والوں سے زیادہ موسموں اور فصلوں کے بارے میں جانتے ہو۔“
سید مقبول عالم سر جھکائے بیٹھے رہے۔
”اچھا سر اٹھاؤ اور مجھے یہ بتاؤ کہ اس مضمون کو تم ادا کرتے تو کیا کہتے ؟“۔
کیا اس بحر میں؟۔
”ہاں۔ یہ بہت رواں بحر ہے۔ لیکن تم پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ بس مضمون یکساں ہو ۔ غالب شفقت سے مسکرائے۔
سید مقبول عالم تھوڑی دیر تک یونہی سر جھکائے بیٹھے رہے اور پھر نگاہیں نیچی کیسے دھیمے سے بولے:
آگے وہ نہال قد کشیده
پیچھے یہ گل خزاں رسیدہ
غالب کے چہرے پر مسرت کی سرخی دوڑ گئی۔ ذرا آگے جھک کر سید مقبول عالم کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے بیٹھے رہے۔
”واللہ۔ اس مضمون پر تمہارا شعر میرے شعر سے افضل ہے۔ بالکل برابر کے ٹکڑے ہیں۔ آگے وہ کے ساتھ پیچھے یہ نہال کے مقابل گل۔ قد کشیدہ کے مقابل خزاں رسیدہ۔ الفاظ کا علو الیسا گویا قصیدے کی تشبیب کہہ رہے ہو۔ اللہ نظر بد سے بچائے۔ ہاں ایک علت اس میں بھی ہے کہ نہال اس شعر میں درخت کے معنی میں آیا ہے۔ عام طور سے نہال سے مراد وہ درخت ہوتا ہے جو ابھی جوان ہو۔ تو اعتراض کرنے والا کہہ سکتا ہے کہ نو جوان درخت کشیدہ قامت کیسے ہو سکتا ہے۔ لیکن میں تو اس شعر پر سر دھنتا ہوں۔ واہ کیا شعر نکالا ہے اور وہ بھی فی البدیہہ ۔ جیتے رہو۔“
سید مقبول عالم نے اٹھ کر سات سلام کیے۔
”بیٹھو صاحب زادے“ غالب نے آہستگی سے انگر کھے کا دامن پکڑ کر کہا۔
”لو اس کا غذ پر یہ دونوں شعر لکھ دو۔“ سید مقبول عالم نے کاغذ لے کر انہیں کے قلم سے دونوں اشعار رقم کر دیے۔
غالب نے ایک نظر دیکھا اور مسکرا کر بولے:
”خوش خط ہو صاحب زادے۔ تمہارے والد گرامی کا خط تو اکثر چودھری عبدالغفور کو واپس مارہرہ بھیج کر دوبارہ لکھوا کر منگانا پڑتا ہے۔ لیکن یہ بات مرشد کے علم میں نہ آئے۔ خبر دار۔ جی بجا فر مایا۔ والد گرامی کا روز نامچہ پڑھنا تو اور زیادہ مشکل کام ہے۔ وہ خود تو آسانی کے ساتھ پڑھ لیتے ہیں۔ ہم لوگوں کو دقت ہوتی ہے۔“
“تم نے ایک بات پوچھی تھی کہ میں نے مارہرہ کا سفر کیوں نہ کیا۔ واللہ میرا بہت جی چاہتا ہے کہ اس دیار کو دیکھوں اور وہاں کی خاک کو سرمہ چشم بناؤں ۔ کئی بار اپنے خطوط میں اپنی اس آرزو کا ذکر بھی کیا کہ میں مارہرہ آؤں اور مرشد کے پاس بیٹھ کر کچھ حرف و حکایت ہو، کچھ شکوہ شکایت ہو۔ چودھری عبدالغفور سرور مارہروی کا بھی ایک زمانے میں بہت اصرار تھا۔ اب تو ناتوانی کے سبب سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ۔ جب بدن میں طاقت تھی اور سماعت و بصارت کا اعتبار تھا تب بھی ہمیشہ یہی سوچا کہ اگر مارہرہ جاؤں گا تو مرشد کے آستانے پر قیام کروں گا۔ ان کے ہوتے چودھری صاحب کے مکان پر نہ ٹھہروں گا۔ لیکن بھلا وہاں جانا کیوں کر ممکن ہوتا۔ وہاں خانقاہ میں شراب نہیں ملتی اور یہاں شام کی شراب کبھی نہیں چھٹتی ۔“ یہ کہہ کر غالب نے اس صندوقچے کی طرف دیکھا جس میں ایک چھوٹا سا تالا لگا ہوا تھا۔“
سید مقبول عالم دھیمی آواز سے ہنسے۔ ”چچا صاحب آپ نے اپنا اور والد گرامی کا سال پیدائش بھی تو ایک شعر میں باندھا تھا۔“
غالب مسکرائے اور ایسا محسوس ہوا جیسے کسی پچھلے زمانے میں چلے گئے ہوں۔ کچھ دیر بعد گویا ہوئے: آپ کے والد گرامی نے لکھا تھا کہ ان کا سن پیدائش بارہ سو گیارہ ہجری ہے اور لفظ تاریخ میں اور ابجد کے اعتبار سے ۱۲۱۱ھ کے اعداد نکلتے ہیں۔ میں آپ کے والد سے ایک برس چھوٹا ہوں یعنی میرا سال پیدائش ایک سال زیادہ ہوا تو ایک شعر لکھ کر بھیج دیا تھا۔
ہاتف غیب شب میں میں یوں چیخا
ان کی ”تاریخ“ میرا ”تاریخا“
اس بار سید مقبول عالم کی ہنسی کی آواز قدرے بلند تھی۔ غالب خود بھی ہنس رہے تھے۔
سید مقبول عالم کو محسوس ہوا کہ مثنوی والے شعر پر جو ہلکا سا انقباض پیدا ہوا تھا وہ دور ہو گیا۔
غالب انہیں دھیمی آواز میں بتارہے تھے۔
”ابھی چند ماہ پہلے میں نے مرشد کو خط میں لکھا تھا کہ ایک شعر کہہ رکھا ہے۔
رشک عرفی و فخر طالب مرد
اسد اللہ خان غالب مرد
دو صاحبوں کو اس کام کے واسطے اپنے ذہن میں ٹھہرایا۔ ایک تو نواب مصطفیٰ خاں ، سو انہوں نے شعر کہنے سے تو بہ کی۔ دوسرے نواب ضیاء الدین خاں وہ اکثر بیمار رہتے ہیں۔ بس اب میں اپنے پیرو مرشد سے اس عنایت کا امید وارو ہوں کہ وہ وقت آنے پر اس شعر کو بند قرار دے کر ترکیب بند رقم فرما دیں۔ صاحب زادے میاں ذرا اس بات کی یاد دہانی کر دینا۔ اس طرح دیکھو تو سال پیدائش اور سال وفات کے اشعار میں صرف مرشد کا ہی ممنون کرم رہوں گا ۔“
اللہ آپ کو ہزاری عمر عطا فرمائے۔“ سید مقبول عالم نے دھیمے سے کہا۔
غالب نے ان کی آنکھوں میں دیکھ کر پڑھا:
ہو چکیں غالب بلائیں سب تمام
ایک مرگ ناگہانی اور ہے
اس کے بعد بھی کچھ ہوا تھا۔ سماعت اور بصارت جتنا یاد رکھ سکی اس کے اعتبار سے سید مقبول عالم اُٹھے اور جھک کر غالب کے دونوں ہاتھوں کو اپنے سر پر رکھ کر رخصت کی اجازت طلب کی تھی۔ غالب نے اپنے دونوں ہاتھوں میں ان کا سر لے کر اپنی طرف جھکا کر ان کی پیشانی کو دو بار چوما تھا۔
سید مقبول عالم نے غالب کو بتایا تھا کہ یہاں سے حضرت نظام الدین اولیاء کے آستانے پر جانے کا قصد ہے۔ شب میں وہیں قیام کا ارادہ ہے۔ صبح بعد نماز فجر عازم مارہرہ ہوں گا۔ غالب نے کہا تھا کہ حضرت نظام الدین اور حضرت خسرو کے آستانوں پر میر اسلام بھی کہیو ۔ اور ممکن ہو تو سال چھ مہینے بعد ایک بار پھر ہم سے آکر مل جانا۔ غالب نے یہ بھی کہا تھا کہ دروازے تک مشایعت نہ کرنے کا سبب صرف ناتوانی ہے۔ اللہ سفر آسان کرے۔
لیکن سماعت اور بصارت جس بات کو محفوظ نہیں کر سکیں وہ یہ تھی کہ سید مقبول عالم کے جانے کے بعد غالب اس کاغذ کے پرزے کو دیر تک دیکھتے رہے اور سوچتے رہے کہ بہت برس ہوئے عربی کا ایک لفظ استعمال کرنے پر جو کیفیت ہوئی تھی ، اس سے ملتی جلتی کیفیت آج بھی ہوئی۔ میرے مرشد زادے سید مقبول عالم وجود کے نیرنگ خانے میں ایک سوال چھوڑ گئے کہ مثنوی کا اصلاح شدہ شعر میں اپنے کلام میں شامل کروں یا نہ کروں اور یہ بھی کہ کیا میں اپنا ذاتی شعر بھی کسی صورت فراموش کر سکتا ہوں۔
جب عصر کا وقت نکل گیا اور مغرب کی اذان بلند ہوئی تو ملازم سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔
صندوقچے سے ٹام ہارٹ کی بوتل نکالی اور یکے بعد دو جر ھے اس طرح نوش کیسے کہ شراب میں شراب کی مقدار سے دو گنا گلاب ملا لیا گیا تھا۔ کاغذ کا وہ پرزہ اب بھی غالب کے ہاتھ میں تھا۔ ملازم نے حقہ تازہ کیا اور چلا گیا۔ ٹام ہارٹ کا سرور چڑھ چکا تھا لیکن چلم کے انگاروں پر جب کاغذ کا وہ پرزہ رکھا اور نے جلنے کی دھیمی آواز آئی اور ہلکا دھواں اٹھا تو اس نیم تاریک گوشئہ مکان میں دھند کی سی کیفیت میں غالب ۔ جس روشن ہیولے کو بہت واضح انداز میں دیکھا اور شعور کی پوری قوت کے ساتھ محسوس کیا وہ خود غالب کی انا تھی۔
غالب نے دھیمے دھیمے کانپتے ہاتھوں سے قلم اٹھایا اور اسے اپنے سیدھے ہاتھ میں مضبوطی سے تھام لیا۔
سید محمد اشرف | تحریر |