دل سوز سے خالی ہے نگہ پاک نہیں ہے
پھر اس میں عجب کیا کہ تو بے باک نہیں ہے
ہے ذوق تجلی بھی اسی خاک میں پنہاں
غافل تو نرا صاحب ادراک نہیں ہے
وہ آنکھ کہ ہے سرمۂ افرنگ سے روشن
پرکار و سخن ساز ہے نمناک نہیں ہے
کیا صوفی و ملا کو خبر میرے جنوں کی
ان کا سر دامن بھی ابھی چاک نہیں ہے
کب تک رہے محکومئ انجم میں مری خاک
یا میں نہیں یا گردش افلاک نہیں ہے
بجلی ہوں نظر کوہ و بیاباں پہ ہے میری
میرے لیے شایاں خس و خاشاک نہیں ہے
عالم ہے فقط مومن جانباز کی میراث
مومن نہیں جو صاحب لولاک نہیں ہے
شعر نمبر 1:
دل سوز سے خالی ہے نگہ پاک نہیں ہے پھر اس میں عجب کیا کہ تو بے باک نہیں ہے |
اے انسان اگر تجھ میں بے خوفی اور تیری نظر پاک نہیں ہے تو اس میں کوئی تعجب والی بات نہیں کیوں کہ جس عنصر کے سبب انسان میں بے خوفی اور نظر میں پاکی پیدا ہوتی ہے تو اس سے خالی ہے۔ یعنی تیرے دل میں جذبۂ عشق موجود نہیں۔ جس نے تجھے پیدا کیا ہے اس کی خالص اور سچی محبت تیری روح میں موجود نہیں ہے۔ لہٰذا نہ تو دلیر ہو سکتا ہے اور نہ ہی تو کسی بڑے منصب پر فائض ہو سکتا ہے۔ اگر تیرے دل میں جذبۂ عشق یا محبت کی سچی گرمی پیدا ہو جائے تو ، تو کائنات کو مسخر کر سکتا ہے، اپنے قبضے میں لے سکتا ہے۔
شعری محاسن: اس غزل کے شعر میں فلسفہ، شاعری اور موسیقی تینوں خصوصیات موجود ہیں۔ شاعر نے ”دل سوز“ سے کنایہ کیا ہے خالص جذبۂ عشق سے۔ ”نگہ پاک اور بے باک“ سے انسان کی باطنی خوبیوں کو مراد لیا ہے۔ بالفاظ دیگر دنیا اور آخرت کی کامیابی سے کنایہ کیا ہے۔
شعر نمبر 2
ہے ذوقِ تجلی بھی اسی خاک میں پنہاں غافل! تو تیرا صاحبِ ادراک نہیں ہے |
اس شعر میں انسان کو اپنی ذات میں غور و فکر کرنے کی دعوت دی ہے کہ اے انسان تیرے بدن کی یہ جو مٹی ہے اس میں خالق نے جلوۂ خداوندی کی دیدار کی خواہش پوشیدہ رکھی ہے۔ مگر افسوس یہ ہے کہ اے غافل یعنی اے بے خبر تو خالص صاحبِ ادراک ، خالص عقل و دانش والا نہیں ہے۔ تو اگر اپنی ذات میں، اپنے وجود میں غور و فکر کرے تو تجھے تیرے دل میں، تیرے وجود میں خالق کا جلوہ نظر آئے۔ تو اسے اپنے دل میں اور اپنے آس پاس محسوس کرے گا۔
شعری محاسن: اس شعر میں لفظ ”خاک“ کو برتا ہے۔ یہ لفظ مجاز مرسل کا معنی پیدا کر رہا ہے۔ ہر انسان تو بظاہر مٹی سے تخلیق نہیں ہوا بل کہ ہر انسان کے پہلے باپ حضرت آدم علیہ السّلام کو مٹی سے بنایا گیا تھا۔ لہٰذا اس شعر میں انسان بول کر انسان کے والدِ اول کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ سبب بول کر مسبب مراد لیا ہے۔
شعر نمبر 3:
وہ آنکھ کہ ہے سرمۂ افرنگ سے روشن پرکار و سخن ساز ہے نمناک نہیں ہے |
اس تیسرے شعر میں اقبال یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ آج ہماری قوم ”سرمہ افرنگ“ یعنی مغربی تہذیب کے رنگ میں تو رچی جا بسی ہے۔ اسی کی ہر بات کو عقل و معیار کا پیمانہ تسلیم کرتی ہے جس کے سبب وہ ہوشیار، چالاک تو ہو چکی ہے، باتیں بہت بنا لیتی ہے یعنی دلائل پہ دلائل تو وہ پیش کر سکتی ہے لیکن اس کی یہ دلیلیں، علم وغیرہ جو خشک اور اخلاق سے عاری ہیں کیوں کہ اس کے دل میں جذبۂ عشق موجود نہیں ہے۔ یعنی اس کا دل اور روح خالق کی محبت سے خالی ہے۔ لہٰذا وہ دنیوی کامیابیاں حاصل کرنے کے باوجود روحانی تسکین حاصل نہیں کر سکتی۔ جس کے سبب وہ تشکیک ، روحانی کرب اور ذہنی الجھنوں میں مبتلا ہے۔
شعری محاسن: اس شعر میں ”سرمۂ فرنگ“ سے استعارہ کیا ہے مغربی تہذیب و تعلیم سے اور ”نم ناک“ سے کنایہ کیا ہے جذبہ عشق سے۔
شعر نمبر 4:
کیا صوفی وملّا کو خبر میرے جنوں کی ان کا سر دامن بھی ابھی چاک نہیں ہے |
اس شعر میں صوفی اور ملّا کو علامت بنا کر شدت پسند مذہبی افراد پر طنز کیا ہے۔ علامہ اقبال یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مذہبی اور روحانی منزلیں حاصل کرنے والے تو کائنات اور شریعت کے رازوں سے واقف ہو جاتے ہیں تو وہ مخلوق خداوندی کو محبت اور اصلاح کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ مگر صوفیت اور ملّائیت کا دعوٰی کرنے والوں کے تو ابھی تک گریباں کیا چاک ہوئے ابھی تک تو ان کے ان کے دامن کا سر ابھی چاک نہیں ہوا ہے۔ مذہب کے پابند اور صوفی جو روحانیت کی منزلوں کو طے کر کے جلوۂ محبوبِ حقیقی میں گم ہوتے ہیں ان کی حالت و کیفیت تو دیوانوں جیسی ہوتی ہے۔ وہ مادہ کی لالچ سے پاک ہو چکے ہوتے ہیں اور یہ کردار تو مادہ کے غلام نظر آتے ہیں۔ لہذا ان کو میرے جنون کی کیا خبر ہے یعنی میرا نصب العین ہے کیا اس سے یہ تو بالکل بے خبر ہیں۔
شعری محاسن: اس شعر میں صوفی اور ملّا کو علامت کے طور پر برتا گیا ہے۔ ان علامتوں کے ذریعے کھوکھلے مذہبی اور روحانی کرداروں کو طنز کا نشانہ بنا کر اصلاح کی کوشش کی گئی ہے۔ سر دامن چاک سے کنایہ کیا گیا خالص روحانی اور مذہبی کرداروں کا۔
شعر نمبر 5:
کب تک رہے محکومیِ انجم میں میری خاک یا میں نہیں یا گردشِ افلاک نہیں ہے |
اس شعر میں علامہ اقبال انسان اور قوم کو آگاہی دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ انسان کب سے ستاروں کے مختلف ہونے میں اپنی تقدیر تلاش کرتا ہے کہ اگر وقت زحل یا مریخ(میخچر یا منگل) کے زیر اثر ہے تو یقیناََ آفات اور عرضی و سماوی میں مبتلا ہوگا اور اگر وقت زہرا یا مشتری کے زیر اثر ہے آئے گا تو بہت کام خود بخود درست ہو جائیں گے۔ اقبال ان توہمات کو رد کرتے ہیں کہ یہ تو انسان کی ضرورت اور خدمت کے لیے اشیا پیدا کی گئی ہیں۔ انسان تو اپنی جدوجہد کے ذریعے انہیں مسخر کر سکتا ہے۔ تو اپنی تقدیر خود لکھ سکتا ہے پر کہاں ان توہمات میں پڑھ کر خود بے عمل ہو بیٹھا ہے۔
شعری محاسن: اس شعر میں اقبال نے نہایت ہی ہنر مندی سے محکومیِ انجم سے قوم میں پائے جانے والے توہمات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ علاوہ ازیں خدمت مسلم کی طرف اشارہ بھی ہو گیا جہاں ستاروں کی گردش اور گردش افلاک پر مسخر قسمتوں کے توہمات کو رد کیا گیا ہے۔ اس طرح اس شعر میں صنعت تلمیح بھی پائی جاتی ہے۔
شعر نمبر 6:
بجلی ہوں نظر کوہ و بیاباں پہ ہے میری میرے لیے شایاں خس و خاشاک نہیں ہے |
اس شعر میں علامہ اقبال یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ایک کامل انسان جس کا دل نورِ ایمان سے روشن ہے وہ اس بجلی کی طرح ہے جو کوہ و بیابان پر گرتی ہے اور اسے جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح مرد کامل انسان تہمات اور برائیوں کو اپنے نورِ ایماں سے جلا کر راکھ کر دیتا ہے یعنی وہ اپنی اصلاحی اور ذہن سازی کی جدوجہد سے ان برائیوں کو مٹا دیتا ہے۔ لہٰذا میرے لیے خس و خاشاک یعنی توہمات اور غیر اخلاقی عناصر شان کے لائق نہیں ہیں ان کو مٹا دینا ضروری ہے۔
شعری محاسن: اس شعر میں خود کو ”بجلی ہوں“ سے تعبیر کیا ہے اور اس سے مراد کامل انسان لیا ہے یعنی کامل انسان کو بجلی سے تشبیہ دی ہے یہ لیکن حرف تشبیہ ذکر نہیں کیا۔ اسے تشبیہ بلیغ کی منزل میں رکھا ہے تاکہ اس کی تاثیر میں اضافہ ہو جائے۔ دوسرے مصرے میں ”توہمات“ کو خس و خاشاک سے تشبیہ دی ہے لیکن مشبہ کو مقصد رکھا ہے تاکہ شعر اپنے ابیاضی اور رمزیہ وصف سے پرتاثیر رہے اور اس کی شعریعت میں کوئی کمی واقع نہ ہو۔
شعر نمبر 7:
عالم ہے فقط مومن جانباز کی میراث مومن نہیں جو صاحبِ لولاک نہیں ہے |
اس شعر میں علامہ اقبال نے اسلامی فکر کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ دنیا کی حکومت اور سروری تو بہادر مومن کی میراث ہے، ملکیت ہے۔ لیکن مومن صرف دعویٰ کرنے سے نہیں بن جاتا بل کہ وہ صاحبِ لولاک یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کے مطابق عمل پیرا ہونے اور ان جیسا مخلص ہونے کے بعد ہی بن سکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کے اخلاقِ حسنہ کا پابند بھی ہونا لازم ہے۔
شعری محاسن: اس شعر میں علامہ اقبال نے ایک بلیغ ترکیب ”لولاک برت کر اس حدیث کی طرف اشارہ کر دیا ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ہے۔ حدیث ہے : ”لولاک لما خلقت الافلاک “یعنی خدا نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد فرمایا کہ اگر تو نہ ہوتا تو میں کائنات کو پیدا نہ کرتا“ اس شعر میں اس حدیث کے سبب صنعت تلمیح کی صفت پائی جاتی ہے۔ تلمیح اس صنعت کو کہتے ہیں کہ جب کوئی شاعر اپنے کلام میں کسی تاریخی واقعے ، کردار، شخص یا قرآن کی کسی آیت کے ٹکڑے یا حدیث کے کسی ٹکڑے کی طرف اشارہ کرے۔
اس غزل کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں فلسفہ، شاعری اور موسیقی تینوں فنونِ جمالیاتی امتزاج کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں سلاست ، روانی اور اندازِ بیان کی ندرت بھی موجود ہے۔