قصیدے کے زوال کے اسباب

قصیدہ گوئی کو سلاطین اور امرا ءسے نسبت رہی ہے، شعراء حضرات بادشاہِ وقت، سلاطین، نوابین اور امراء کی شان میں قصیدے لکھتے اور انعام وصول کرتے، مثلاً ذوق بہادر شاہ ظفر کے دربار سے وابستہ تھے اور ان کی مدح سرائی میں قصائد کہتے تھے، جب شاہی و نوابی کا اختتام ہوا تو فن قصیدہ بھی زوال پذیر ہوا، جب وہ شخصیات ہی نہ رہیں جو اپنے مدح سراؤں کو فیض یاب فرماتی تھیں تو شعراء نے بھی اس صنف کی طرف توجہ کم کر دی، ایک اور وجہ معاشرتی تبدیلی تھی، بیسویں صدی کے اوائل سے ادباء نے مغربی ادب سے استفادہ کرتے ہوئے حقیقت نگاری اور ادب برائے زندگی سے تعلق استوار کیا، قصیدہ میں تخیل اور مبالغہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے جو حقیقت نگاری سے براہ راست متصادم ہے، لہٰذا ادباء نے دانستہ بھی قصیدہ گوئی سے گریز کیا، نیز اردو ادب میں قصیدہ فارسی اور عربی روایت سے وارد ہوا، اس کی لفاظی اور ساخت کو فارسی ادب سے گہری وابستگی ہے، اردو ادب کا ماخذ جب فارسی اور عربی کی بجائے انگریزی اور یورپی زبانیں بنیں تو مشرقی اصنافِ ادب بشمول قصیدہ بھی متاثر ہوئیں، یوں وہ صنف جو کبھی شاعر کے کمالِ فن کی دلیل ہوتی تھی، راندۂ ادب ہوئی۔ بہر حال دورِ جدید میں قصیدہ گو شعراءکی کمی کالم نگاروں، میڈیا اینکرز اور یوٹیوبرز نے بہت حد تک پوری کر رکھی ہے۔