اس ڈرامے میں ڈراما نگار نے شہزادے اور کنیز کے خیالات اور جذبات کو محبت کو ایک ہی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ اکبر اگر شہزادے اور کنیز کی محبت کا مخالف ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ غربت اور بے بسی کو ہمیشہ حقارت کی نظر سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔ سماج میں غریب انسان کی پر خلوص اور لازوال محبت کو بھی نفرت سے دیکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکبر کے خیالات مادہ پرستی پر مبنی ہیں۔ چنانچہ و ہ انار کلی کی عظیم محبت کی پروا ہ نہ کرتے ہوئے ادنیٰ کنیز سے زیادہ وقعت نہیں دیتا۔ لہٰذا ڈاکٹر حنیف فوق کی رائے بجا ہے کہ، ” امتیاز علی تاج کی بہت بڑی جیت یہی ہے کہ انھوں نے انسانی جذبات کو ان کے سماج اور ماحول سے منقطع کرکے پیش نہیں کیا۔ اس طور پر انار کلی حقیقت نگاری کا اپنا ایک نیا معیار قائم کرتی ہے۔ جواب تک اردو ڈراموں میں نہیں ملتا۔ “
اس میں شک نہیں کہ تاج ایک خاص حوالے سے گذرے ہوئے زمانے کی ترجمانی کر جاتے ہیں لیکن ذرا غور کیا جائے تو جذباتی، نفسیاتی اور معاشرتی حوالوں سے زندگی آج بھی اس ڈگر پر چل رہی ہے جس پر کئی صدیاں پہلے تھی۔ اس ليے کہ آج بھی وہی مادہ پرستی، شان و شوکت کی پاسداری اور طبقاتی اونچ نیچ کی گرم بازاری ہے۔ اس اعتبار سے امتیاز علی تاج کے قلم کو بلاشبہ عصر حاضر کا ترجمان کہہ سکتے ہیں۔