اپنی رحمت کے سمندر میں اُتر جانے دے بے ٹھکانہ ہوں ازل سے مجھے گھر جانے دے |
سُوئے بطحا لئے جاتی ہے ہوائے بطحا بوئے دنیا مجھے گمراہ نہ کر جانے دے |
بے ٹھکانہ ہوں ازل سے مجھے گھر جانے دے تیری صورت کی طرف دیکھ رہا ہوں آقا |
پتلیوں کو اِسی مرکز پہ ٹھہر جانے دے اپنی رحمت کے سمندر میں اُتر جانے دے |
زندگی! گنبدِ خضرٰی ہی تو منزل ہے مری مجھ کو ہریالیوں میں خاک بسر جانے دے |
موت پر میری شہیدوں کو بھی رشک آئے گا اپنے قدموں سے لپٹ کر مجھے مر جانے دے |
اپنی رحمت کے سمندر میں اُتر جانے دے خواہشِ ذات بہت ساتھ دیا ہے تیرا اب جدھر میرے مُحَمّد ہیں اُدھر جانے دے |
روک رضواں نہ مظفؔر کو درِ جنت پر یہ مُحَمّد کا ہے منظورِ نظر جانے دے |
اپنی رحمت کے سمندر میں اُتر جانے دے بے ٹھکانہ ہوں ازل سے مجھے گھر جانے دے |