بندہ ملنے کو قریب حضرت قادر گیا لمعہءِ باطن میں گمنے جلوہ ءِ ظاہر گیا |
تیری مرضی پا گیا سورج پھرا الٹے قدم تیری انگلی اٹھ گئی مہ کا کلیجا چر گیا |
بڑھ چلی تیری ضیا اندھیر عالم سے گھٹا کھل گیا گیسو ترا رحمت کا بادل گھر گیا |
بندھ گئی ہوا سا وہ میں خاک اڑنے لگی بڑھ چلی تیری ضیا آتش پہ پانی پھر گیا |
تیری رحمت سے صفی اللہ کا بیڑا پار تھا تیرے صدقے سے نجی اللہ کا بجرا تِر گیا |
تیری آمد تھی کہ بیت اللہ مجرے کو جھکا تیری ہیبت تھی کہ ہر بت تھر تھرا کر گر گیا |
مومن ان کا کیا ہوا اللہ اس کا ہو گیا کافر ان سے کیا پھرا اللہ ہی سے پھر گیا |
وہ کہ اس در کا ہوا اللہ اس کا ہو گیا وہ کہ اس در سے پھرا اللہ اس سے پھر گیا |
مجھ کو دیوانہ بتاتے ہو میں وہ ہشیار ہوں پاﺅں جب طوف حرم میں تھک گئے سر پھر گیا |
رحمة للعالمین آفت میں ہوں کیسی کروں میرے مولیٰ میں تو اس دل سے بلا میں گھر گیا |
میں ترے ہاتھوں کے صدقے کیسی کنکریاں تھیں وہ جن سے اتنے کافروں کا دفعتاً منہ پھر گیا |
کیوں جناب بو ہریرہ تھا وہ کیسا جام شیر جس سے ستر صاحبوں کا دودھ سے منہ بھر گیا |
واسطہ پیارے کا ایسا ہو کہ جو سنی مرے یوں نہ فرمائیں ترے شاہد کہ وہ فاجر گیا |
عرش پر دھومیں مچیں وہ مومن صالح ملا فرش سے ماتم اٹھے وہ طیب و طاہر گیا |
اللہ اللہ یہ علوِ خاص عبدیت رضا بندہ ملنے کو قریب حضرت قادر گیا |
ٹھوکریں کھاتے پھرو گے ان کے در پر پڑ رہو قافلہ تو اے رضا اوّل گیا آخر گیا |