Back to: ت سے شروع ہونے والی نعتیں
تو ہے وہ غوث کہ ہر غوث ہے شیدا تیرا تو ہے وہ غیث کہ ہر غیث ہے پیاسا تیرا |
سورج اگلوں کے چمکتے تھے چمک کر ڈوبے افقِ نور پہ ہے مہر ہمیشہ تیرا |
مرغ سب بولتے ہیں بول کے چپ رہتے ہین ہاں اصیل ایک نوا سنج رہے گا تیرا |
جو ولی قبل تھے یا بعد ہوئے یا ہوں گے سب ادب رکھتے ہیں دل میں مرے آقا تیرا |
بقسم کہتے ہیں شاہان صریفین و حریم کہ ہوا ہے نہ ولی ہو کوئی ہمتا تیرا |
تجھ سے اور دہر کے اقطاب سے نسبت کیسی قطب خود کون ہے خادم ترا چیلا تیرا |
سارے اقطاب جہاں کرتے ہیں کعبہ کا طواف کعبہ کرتا ہے طواف در والا تیرا |
اور پروانے ہیں جو ہوتے ہیں کعبہ پہ نثار شمع اک تو‘ ہے کہ پروانہ ہے کعبہ تیرا |
شجرِ سرو کہی کس کے اگائے تیرے معرفت پھول سہی کس کا کھلایا تیرا |
تو ہے نوشاہ براتی ہے یہ سارا گلزار لائی ہے فصل سمن گوندھ کے سہرا تیرا |
ڈالیاں جھومتی ہیں رقص خوشی جوش پہ ہے بلبلیں جھولتی ہیں گاتی ہیں سہرا تیرا |
گیت کلیوں کی چٹک غزلیں ہزاروں ک چہک باغ کے سازوں میں بجتا ہے ترانا تیرا |
صف ہر شجرہ مین ہوتی ہے سلامی تیری شاخیں جھک جھک کے بجا لاتی ہیں مجرا تیرا |
کس گلستاں کو نہیں فصلِ بہاری سے نیاز کون سے سلسلہ میں فیض نہ آیا تیرا |
نہیں کس چاند کی منزل میں ترا جلوہ نور نہیں کس آئینہ کے گھر میں اجالا تیرا |
راج کس شہر میں کرتے نہیں تیرے خدام باج کس نہر سے لیتا نہیں دریا تیرا |
مزرعِ چشت و بخارا و عراق و اجمیر کون سی کشت پہ برسا نہیں جھالا تیرا |
اور محبوب ہیں ہاں پر سبھی یکساں تو نہیں یوں تو محبوب ہے ہر چاہنے والا تیرا |
اس کو سو فرد سراپا بفراغت اوڑھیں تنگ ہو کر جو اترنے کو ہو نیما تیرا |
گردنیں جھک گئیں سر بچھ گئے دل لوٹ گئے کشفِ ساق آج کہاں یہ تو قدم تھا تیرا |
تاج فرق عرفا کس کے قدم کو کہیے سر جسے باج دیں وہ پاﺅں ہے کس کا تیرا |
سکر کے جوش مین جو ہیں وہ تجھے کیا جانیں خضر کے ہوش سے پوچھے کوئی رتبہ تیرا |
آدمی اپنے ہی احوال پہ کرتا ہے قیاس نشے والوں نے بھلا سکر نکالا تیرا |
وہ تو چھوٹا ہی کہا چاہیں کہ ہیں زیر حضیض اور ہر اوج سے اونچا ہے ستارہ تیرا |
دل اعدا کو رضا تیز نمک کی دُھن ہے اک ذرا اور چھڑکتا رہے خامہ تیرا |