ذکرِ احمد میں گزری جو راتیں حال انکا بتایا نہ جائے مجھ کو کیا کیا ملی ہیں سوغاتیں حال انکا بتایا نہ جائے |
زندگی اپنی پُر از خطا ہے کوئی اچھا عمل نہ کیا ہے پر مدینے میں لی ہیں جو سانسیں حال انکا بتایا نہ جائے |
پہنچ کر روضئہ مصطفےٰ پر چوم کر جالیاں بے خودی میں کیوں تواتر سے برسی ہیں آنکھیں حال انکا بتایا نہ جائ |
عرشِ اعلیٰ پہ معراج کی شب رب میں اور رب کے پیارے نبی میں کیسی کیسی ہوئی ملاقاتیں حال انکا بتایا نہ جائے |
دور خاکِ مدینہ سے رہ کر جینا دشوار تر ہو گیا ہے دل میں ہلچل مچائیں جو آسیں حال انکا بتایا نہ جائے |