Back to: Islamic Stories In Urdu
ایک وقت تھا جب ملک کے بادشاہ کے اندر عبادت، پرہیز گاری اور دینی سمجھ بوجھ کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہوتی تھی۔ آج کے اس گئے گزرے دور میں بندہ ان واقعات کو سنے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ چنانچہ حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کی نمازِ جنازہ کا واقعہ بھی عقل کو حیران کردینے والے واقعات میں سے ایک ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔
جب حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات ہوئی تو ہندوستان بھر میں کہرام مچ گیا۔جنازہ تیار ہوا اور اسے ایک بڑے میدان میں نمازِ جنازہ ادا کرنے کیلئے لایا گیا۔ مخلوق مورومگس کی طرح جنازہ پڑھنے کے لیے نکل پڑی تھی۔ انسانوں کا ایک سمندر تھا جو حدِ نگاہ تک نظر آتا تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ ایک بپھرے ہوئے دریا کی مانند یہ مجمع ہے۔ جب نمازِ جنازہ پڑھانے کا وقت قریب آیا تو اچانک مجمع میں سے ایک آدمی آگے بڑھا اور مجمع کی طرف رخ کرکے کہنے لگا کہ “میں حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کا وصی ہوں۔ مجھے حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے ایک وصیت کی تھی لٰہذا میں اس مجمع تک حضرت مرحوم کی وہ وصیت پہنچانا چاہتا ہوں۔ مجمع سننے کے لئے خاموش ہوگیا۔ وصیت کیا تھی؟ سنیے! وصی نے کہا کہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے یہ وصیت کی تھی کہ میرا نمازِ جنازہ وہ شخص پڑھائے جس کے اندر چار خوبیاں موجود ہوں۔
پہلی خوبی:
پوری زندگی میں اس کی تکبیر اولیٰ کبھی بھی قضا نہ ہوئی ہو۔
دوسری خوبی :
اس کی تہجد کی نماز کبھی بھی قضا نہ ہوئی ہو۔
تیسری خوبی :
وہ اتنا عبادت گزار ہو حتیٰ کہ اس نے عصر کی غیر مؤکدہ سنتیں بھی کبھی نہ چھوڑی ہوں۔
چوتھی خوبی :
اس نے زندگی میں غیر محرم عورت پر کبھی بھی بری نظر نہ ڈالی ہو۔
لہذا جس شخص میں یہ چاروں خوبیاں موجود ہوں وہ میرا نمازِ جنازہ پڑھائے، جب حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی یہ وصیت مجمع کو سنائی گئی تو مجمع پر سناٹا چھا گیا۔ مجمع ایسے ساکت ہوگیا جیسے اسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ لوگوں کے سر جھک گئے۔ کون ہے جو قدم آگے بڑھائے، کافی وقت گزر گیا وصیت کا اعلان بار بار کیا جاتا رہا لیکن کوئی بھی شخص نمازِ جنازہ پڑھانے کے لئے تیار نہ ہوا۔ لوگ آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی ان شرائط کے ساتھ کوئی بھی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا جنازہ نہیں پڑھا سکے گا۔
دن اپنے اختتام کی طرف بڑھنے لگا تو ایک شخص روتا ہوا آگے بڑھا۔ حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے جنازے کے قریب آیا۔ جنازے سے چادر ہٹائی اور کہا حضرت ! آپ خود تو فوت ہوگئے لیکن میرا راز افشا کر گئے۔
اس کے بعد بھرے مجمع کے سامنے اللہ کو حاضر و ناظر جان کر قسم اٹھائی کہ الحمد للہ میرے اندر یہ چاروں خوبیاں موجود ہیں۔ لوگوں نے حیرانگی سے دیکھا یہ وقت کے بادشاہ شمس الدین التمش رحمۃ اللہ علیہ تھے۔
غور وفکر کا مقام ہے کہ اگر بادشاہی کرنے والے دینی زندگی گزار سکتے ہیں تو پھر کیا ہم دکان کرنے والے یا فیکٹری چلانے والے یا دفتر میں جانے والے یا کھیتی باڑی کرنے والے ایسی زندگی کیوں نہیں گزار سکتے۔
اللہ رب العزت ہمیں زندگی بھر نیکی پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!