چالیس مرتبہ سورہ یاسین پڑھنے کی فضیلت

ایک مرتبہ امام ناصرالدین بستیؒ بیمار ہوئے اور اس بیماری میں آپ کو مرض سکتہ ہوگیا۔ اعزا اقرباء نے آپ کو مردہ تصور کرکے دفن کردیا۔ رات کے وقت آپ کو ہوش آیا، خود کو مدفون دیکھا تو سخت متحیر ہوئے۔ اس حیرت و پریشانی و اضطراب میں آپ کو یاد آیا کہ جو شخص حالت پریشانی میں چالیس مرتبہ سورۂ یٰسین پڑھتا ہے اللہ تعالٰی اس کے اضطراب کو دفع کرتا ہے اور تنگی فراخی سے بدل جاتی ہے۔

چنانچہ آپ نے سورۂ یٰسین پڑھنی شروع کی۔ ابھی انتالیس مرتبہ پڑھ چکے تھے کہ ایک کفن چور نے کفن چرانے کی نیت سے آپ کی قبر کھودی۔ امام نے اپنی فراست سے معلوم کیا کہ یہ کفن چور ہے۔ چالیسویں مرتبہ آپ نے بہت دھیمی آواز سے پڑھنا شروع کیا کہ دوسرا شخص نہ سن سکے۔

ادھر آپ نے چالیسویں مرتبہ پورا کیا ادھر کفن چور بھی اپنا کام پورا کر چکا تھا۔ آپ اٹھ کر قبر سے باہر آئے۔ کفن چور اس قدر ڈرا کہ اس کا دل پھٹ گیا اور چل بسا۔ امام ناصرالدین کو خیال ہوا کہ اگر میں فوراً شہر چلا جاؤں تو لوگوں کو سخت پریشانی وحیرت وہیبت ہوگی۔ پس آپ رات کو شہر میں گئے اور ہر محلہ کے دروازے کے آگے پکارتے تھے کہ میں ناصرالدین بستی ہوں تم لوگوں نے مجھے سکتہ کی حالت میں دیکھ کر غلطی سے مردہ تصور کیا اور دفن کردیا میں زندہ ہوں۔ اس واقعہ کے بعد امام ناصر الدین نے قرآن کریم کی تفسیر لکھی۔
[ فوائدالفواد مترجم ص: ۱۳۹]

اس طرح کا واقعہ چوتھی صدی ہجری کے مشہور عالم وادیب علامہ بدیع الزمان کے ساتھ بھی پیش آیا کہ وہ بیمار تھے۔ بیماری کے عالم میں ان پر سکتہ طاری ہوا۔ لوگ سمجھے کہ انتقال کرگئے اس لیے ان کی تکفین وتجہیز کردی گئی اور انہیں دفن کردیا۔ حالانکہ آپ زندہ تھے۔ قبر میں ہوش آیا تو چیخ پڑے۔ لوگوں نے قبر دوبارہ کھولی تو آپ نے داڑھی ہاتھ سے پکڑی رکھی تھی اور قبر کی ہولناکی کی وجہ سے انتقال فرماگئے تھے۔ [ وفیات الأعیان ج ۱ ص ۱۲۸]