Discy Latest Questions

  1. جواب: اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے، زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جس کے متعلق رسول اکرم ﷺ نے قول و عمل سے اللہ تعالیٰ کےاحکام ہم تک نہ پہنچائے ہوں۔ اسلام صرف اللہ اللہ کرنے نہیں سکھاتا، بلکہ یہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جس میں عبادات، معاملات، اخلاقیات، سیاسیات، معاشیات، اور معاشرت وغیرہ سب شامل ہیں۔ حضوRead more

    جواب: اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے، زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جس کے متعلق رسول اکرم ﷺ نے قول و عمل سے اللہ تعالیٰ کےاحکام ہم تک نہ پہنچائے ہوں۔ اسلام صرف اللہ اللہ کرنے نہیں سکھاتا، بلکہ یہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جس میں عبادات، معاملات، اخلاقیات، سیاسیات، معاشیات، اور معاشرت وغیرہ سب شامل ہیں۔ حضور ﷺ کو ایک کامل شریعت عنایت ہوئی آپ ﷺ آخری نبی ہیں اور آپ ﷺ پر دین کی تکمیل ہوگئی ہے چنانچہ ارشاد ہے:
    ترجمہ: آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا۔ (سورۃ المائدۃ:۳)

    See less
    • 0
  1. جواب: عمل کے معنی کام کے ہیں اور صالح کا مطلب ہے نیک۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، رسالت اور آخرت وغیرہ کا زبان سے اقرار اور ان پر دل سے یقین ایمان کہلاتا ہے اور اسلام کی رو سے ایمان کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کے احکام بجالانے کو عمل صالح کہتے ہیں۔ اس کی تین قسمیں ہیں: عبادات: عبادات اللہ تعالیٰ کے حضور انتRead more

    جواب: عمل کے معنی کام کے ہیں اور صالح کا مطلب ہے نیک۔
    اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، رسالت اور آخرت وغیرہ کا زبان سے اقرار اور ان پر دل سے یقین ایمان کہلاتا ہے اور اسلام کی رو سے ایمان کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کے احکام بجالانے کو عمل صالح کہتے ہیں۔ اس کی تین قسمیں ہیں:

    عبادات:

    عبادات اللہ تعالیٰ کے حضور انتہائی، عاجزی اور محتاجی کے اظہار کا نام عبادت ہے۔اصطلاح شریعت میں نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج جیسے احکام کی بجا آوری کو عبادات کہتے ہیں۔

    معاملات:

    معاملات سے مراد انسانوں کے آپس کے حقوق و فرائض ہیں۔

    اخلاق:

    اخلاق سے مراد انسانی سیرت کی وہ خوبیاں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں اور انسان کی شخصیت نکھارتی ہیں۔

    See less
    • 0
  1. جواب: جابر بن حیان کے والد حیان بن عبداللہ عطرکا کاروبار کرتے تھے۔

    جواب: جابر بن حیان کے والد حیان بن عبداللہ عطرکا کاروبار کرتے تھے۔

    See less
    • 0
  1. جواب: جابر بن حیان نےکیمیا کی کتب کے علاوہ اقلیدس کی کتاب ہندسے، بطلیموں کی کتاب محبسطی کی شرحیں بھی لکھیں۔ نیز منطق اور شاعری پر بھی رسالے تصنیف کیے۔ اس سب کے باوجود جابر مذہبی آدمی تھے۔ انھوں نے 200 سے زیادہ کتابیں تحر یرکیں جن میں سے چند مشہور تصانیف مندرجہ ذیل ہیں: ۱۔ کتاب الملک، ۲۔ کتاب الرحمہ،Read more

    جواب: جابر بن حیان نےکیمیا کی کتب کے علاوہ اقلیدس کی کتاب ہندسے، بطلیموں کی کتاب محبسطی کی شرحیں بھی لکھیں۔ نیز منطق اور شاعری پر بھی رسالے تصنیف کیے۔ اس سب کے باوجود جابر مذہبی آدمی تھے۔

    انھوں نے 200 سے زیادہ کتابیں تحر یرکیں جن میں سے چند مشہور تصانیف مندرجہ ذیل ہیں:
    ۱۔ کتاب الملک، ۲۔ کتاب الرحمہ، ۳۔ کتاب التحمیع، ۴۔ زیبق الشرقی، ۵۔ کتاب الموازین الصغیر

    جابر بن حیان کی تمام تصانیف کا ترجمہ لاطینی کے علاوہ دیگر یورپی زبانوں میں ہو چکا ہے۔ تقریباً آٹھ نو سو سال تک کیمیا کے میدان میں وہ تنہا چراغ راہ تھا۔ اٹھارویں صدی میں جدید کیمیا کے احیاء سے قبل جابر کے نظریات کو ہی حرف آخر خیال کیا گیا۔ بطور کیمیادان کے ایمان تھا کہ علم کیمیا میں تجربہ سب سے اہم چیز ہے۔ انھوں نے عملی طور پر دنیا کو دکھایا کہ کچھ جاننے اور سیکھنے کے لیے صرف مطالعے اور علم کے علاوہ خلوص اور تندہی کے ساتھ تجربات کی بھی ضرورت ہے۔

    See less
    • 0
  1. سریہ سیف البحر: اس سریہ کو امام بخاری نے غزوہ سیف البحر کے نام سے ذکر کیا ہے۔ رجب 8ھ میں حضور صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے ابوعبیدہ بن الجراح کو تین سو صحابہ کرام کے لشکر پر امیر بنا کر ساحل سمندر کی جانب روانہ فرمایا کہ یہ لوگ قبیلہ جہینہ کے کفار کی شرارتوں پر نظر رکھRead more

    سریہ سیف البحر:

    اس سریہ کو امام بخاری نے غزوہ سیف البحر کے نام سے ذکر کیا ہے۔ رجب 8ھ میں حضور صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے ابوعبیدہ بن الجراح کو تین سو صحابہ کرام کے لشکر پر امیر بنا کر ساحل سمندر کی جانب روانہ فرمایا کہ یہ لوگ قبیلہ جہینہ کے کفار کی شرارتوں پر نظر رکھیں اس لشکر میں خوراک کی اس قدر کمی پڑ گئی کہ امیرلشکر مجاہدین کو روزانہ ایک ایک کھجور راشن میں دیتے تھے۔ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آگیا کہ یہ کھجوریں بھی ختم ہوگئیں اور لوگ بھوک سے بے چین ہو کر دوختوں کے پتے کھانے لگے۔

    جابر بن عبداللہ روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے ابوعبیدہ کو امیر بنا کر تین سو آدمیوں کا ایک لشکر ساحل کی طرف بھیجا ہم چل پڑے ہم راستہ ہی میں تھے کہ زادراہ ختم ہو گیا ابوعبیدہ نے تمام لشکر کے توشے حکم دے کر جمع کر لیے تو وہ کھجور کے دو تھیلے ہوئے ابوعبیدہ ہمیں روز تھوڑا تھوڑا دیتے یہاں تک کہ وہ بھی ختم ہو گیا اب ہمیں ایک ایک کھجور ملنے لگی میں نے جابر سے کہا ایک کھجور سے کیا پیٹ بھرتا ہوگا جابر نے کہا اس ایک کھجور کے ملنے کی حقیقت جب معلوم ہوتی کہ جب وہ بھی ختم ہو گئی یہاں تک کہ ہم (ساحل) سمندر پر پہنچ گئے تو دیکھا کہ ایک مچھلی پہاڑ ی کی طرح موجود ہے اس لشکر نے وہ مچھلی اٹھارہ دن تک کھائی پھر ابوعبیدہ نے اس مچھلی کی دو پسلیاں کھڑی کرائیں اور ایک سواری کو اس کے نیچے سے گزارا تو بغیر اس کے لگے ہوئے سواری نیچے سے صاف نکل گئی۔ (صحیح بخاری)

    See less
    • 0
  1. حسب و نسب: حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا پورا نام حسین بن علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم رضی اللہ عنہ ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کےوالد شیر خدا حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور والدہ خاتون جنت حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا بنت حضرت محمد رسول اللہ حاتم النبیین صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاRead more

    حسب و نسب:

    حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا پورا نام حسین بن علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم رضی اللہ عنہ ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کےوالد شیر خدا حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور والدہ خاتون جنت حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا بنت حضرت محمد رسول اللہ حاتم النبیین صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ یعنی والدہ اور والد دونوں طرف سے آپ ہاشمی اور صاحب شرف و فضیلت ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوعبداللہ اور القاب سیدالشہداء، سید شباب اھل الجنۃ، اور ریحانہ النبی، ہیں جبکہ امت مسلمہ ہیں آپ رضی اللہ عنہ شہید کربلا کے لقب سے بھی یاد کیے جاتے ہیں۔

    See less
    • 0
  1. یزید کی بیعت سے انکار اور سانحہ کربلا: یزید کی تخت نشینی کے بعد مدینہ منورہ کے گورنر ولید بن عقبہ نے یزید کے حکم سے سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو یزید کی بیعت کرنے کے لیے بلایا، لیکن آپ رضی اللہ عنہ نے بیعت کرنے سے انکار کیا اور مکہ مکرمہ روانہ ہو گئے۔ امام رضی اللہ عنہ نے مکہ مکرمہ میں چار ماہ قیRead more

    یزید کی بیعت سے انکار اور سانحہ کربلا:

    یزید کی تخت نشینی کے بعد مدینہ منورہ کے گورنر ولید بن عقبہ نے یزید کے حکم سے سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو یزید کی بیعت کرنے کے لیے بلایا، لیکن آپ رضی اللہ عنہ نے بیعت کرنے سے انکار کیا اور مکہ مکرمہ روانہ ہو گئے۔ امام رضی اللہ عنہ نے مکہ مکرمہ میں چار ماہ قیام فرمایا۔ اس دوران کوفہ کے لوگوں نے آپ رضی اللہ عنہ کی طرف خطوط بھیجے کہ آپ رضی اللہ عنہ کوفہ آجائیں تاکہ رضی اللہع نہ کے ہاتھ بیعت کریں، آپ رضی اللہ عنہ کے سوا ہمارا کوئی پیشوا اور امام نہیں اس لیے کہ یزیدی حکومت میں اسلامی اقدار کی پامالی ہورہی ہے اور اسلامی احکامات کا تمسخر اڑایا جارہا ہے۔ اس کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے چچا زاد بھائی حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کوکوفہ بھیجاتاکہ وہ جائز حالات کاجائزہ لیں۔ اس دور ان یزید کو حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کے آنے کے بارے میں اطلاع دی گئی، پھریزید نے کوفہ کے گورنر حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کو معزول کرکے عبیداللہ بن زیاد کو گورنر مقرر کیا اور حکم صادر کیا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے نمائندے مسلم بن عقیل کوقید یاقتل کیا جائے۔

    اسی دوران مسلم بن عقیل نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو اطلاع دی کہ آپ رضی اللہ عنہ کوفہ جائیں اور کوفہ کے لوگ میرے ہاتھ پر آپ رضی اللہ عنہ کی بیعت کرچکے ہیں۔ ادھر ابن زیاد نے مسلم بن عقیل کو شہید کروادیا۔ امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے اہل وعیال کے ساتھ ۸ ذہ الحجہ ۶۰ ہجری کو مکہ مکرمہ سے کوفہ کے لیے روانہ ہوئے۔ چوبیس دنوں کا نہایت طویل اور کٹھن سفر طے کرکے ۲محرم الحرام ۶۱ ہجری کو مقام کربلا پہنچے۔ یزیدی لشکر کے کمانڈ عمر بن سعد نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو یزید کی بیعت پر اصرار کیا اور اس بات چیت کا سلسلہ دو محرم الحرام سے دس محرم الحرام تک چلتا رہا، مگر امام حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت اور باطل کے سامنے جھکنے سے صاف انکار کر دیا۔ بالآخر ۱۰ محرم الحرام ہجری کو حق و باطل کا معرکہ ہوا جس میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے اہل وعیال اور جان نثار ان کے ساتھ بھوک اور پیاس کی حالت میں شہید کردیئے گئے۔اسی طرح حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے دین اسلام کی سربلندی اور کلمہ حق کی برتری کے لیے عظیم الشان قربانی دے کر عالم اسلام کے لیے ایک مثال قائم کردی۔

    آرام گاہ:
    عراق کا شہر”کربلا“ جو آج کل مشہور شہروں میں شمار ہوتا ہے وہاں سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا روضہ مبارک واقع ہے اور وہ آپ رضی اللہ عنہ کی آرام گاہ ہے۔

    See less
    • 0
  1. جواب: سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی سب سے بڑی فضیلت آپ رضی اللہ عنہ کا نبوت والے گھرانہ میں پیدا ہونا ہے کہ جس کے نانا نبی اخرالزمان حضور کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نانی حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا، دادا حضرت ابوطالب بن عبدالمطلب، دادی فاطمہ بنت اسد،والدحضرتRead more

    جواب: سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی سب سے بڑی فضیلت آپ رضی اللہ عنہ کا نبوت والے گھرانہ میں پیدا ہونا ہے کہ جس کے نانا نبی اخرالزمان حضور کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نانی حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا، دادا حضرت ابوطالب بن عبدالمطلب، دادی فاطمہ بنت اسد،والدحضرت علی شیر خدارضی اللہ عنہ، والدہ خاتون جنت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا اور بھائی سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ ہوں، اس سے بڑھ کر کیافضیلت ہو سکتی ہے۔ حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّم کی مبارک زبان سے آپ رضی اللہ عنہ کے فضائل کے بارے میں بہت سی احادیث وارد ہیں۔ حضور اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا جنت کی عورتوں کی سردار ہیں اور حسن و حسین رضی اللہ عنہما جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔ (سنن ترمذی)

    حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: جو شخص حسن اور حسین سے محبت کرتا ہے وہ گویا مجھ سے محبت کرتا ہے اور جو ان سے بعض رکھتا ہے وہ گویا مجھ سے بغض رکھتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ)

    ایک دفعہ حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ کسی دعوت پر جا رہے تھے کہ مدینہ منورہ کی ایک گلی میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو دیکھا تو آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے بڑھ کر ان کو پکڑنے کے لیے اپنے ہاتھ پھیلائے۔ اس پر وہ ادھر ادھر بھاگنے لگے، آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے اس کو ہنساتے ہوئے آخر میں پکڑ لیا، اور اس کی پیشانی چومتے ہوئے آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے، جس کی حسین سے محبت ہوگی اللہ تعالیٰ اس کو محبوب رکھے گا، میر نواسوں میں سے حسین ایک نواسہ ہے۔ (سنن ابن ماجہ)

    سیدنا رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ جب آخری ایام میں علیل ہوگئے تو خاتون جنت حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا اپنے دونوں صاحب زادوں کے ساتھ آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی عیادت کے لیے حاضر ہوئیں اور عرض کیا: ابا جان! آپ میرے ان بیٹوں کو کچھ عنایت کریں۔ تو رسول کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ہم نے اپنی ہیبت وسرداری حسن کو اور جرأت و سخاحسین کو عطا کی۔ حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما سے محبت کرنا رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ سے محبت کرنا ہے اور ان دونوں سے بغض و عناد رکھنا نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ سے بغض وعناد رکھنا ہے۔

    See less
    • 0
  1. عفت کے معنی اور مفہوم: عفت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لفظی معنی ہیں پرہیزگاری اور پاکیزگی۔ اور عفت کا شرعی مفہوم ہے پاک دامن رہنا، اخلاقی پاکیزگی اور نفسانی خواہشات کو قابو میں رکھ کربے راہ روی، بدکاری، بے حیائی جیسے کاموں سے نفس کو محفوظ رکھنا۔ اس کے ساتھ دوسرا لفظ آتا ہے، عصمت، کاجس کے معنی ہے پاکRead more

    عفت کے معنی اور مفہوم:

    عفت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لفظی معنی ہیں پرہیزگاری اور پاکیزگی۔ اور عفت کا شرعی مفہوم ہے پاک دامن رہنا، اخلاقی پاکیزگی اور نفسانی خواہشات کو قابو میں رکھ کربے راہ روی، بدکاری، بے حیائی جیسے کاموں سے نفس کو محفوظ رکھنا۔ اس کے ساتھ دوسرا لفظ آتا ہے، عصمت، کاجس کے معنی ہے پاک دامنی، بے گناہی اور عزت، قرآن کریم میں سچے مومن کے کئی اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔ جن میں سے ایک عفت ہے کہ
    ترجمہ: اور (کامیاب مومن وہ ہے) جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔
    تو ایسے انسان کو عفیف/عفت والا(پاک دامن) کہا جاتا ہے۔

    See less
    • 0
  1. حیا کے لفظی معنی ہیں شرم اورغیرت حیا کا مطلب ہے انسان کے اندر ایک فطری اور اخلاقی صفت ودیعت کی گئی ہے، جس کے باعث وہ انسان خوف خدا کے جذبے کے تحت بے حیائی اور بداخلاقی جیسے ناشائستہ کام سے اپنے آپ کو بچا لیتا ہے اور برائی سے دور بھاگنے کی کوشش کرتا ہے، تو ایسے انسان کو حیادار کہا جاتا ہے۔ انسان کی شRead more

    حیا کے لفظی معنی ہیں شرم اورغیرت حیا کا مطلب ہے انسان کے اندر ایک فطری اور اخلاقی صفت ودیعت کی گئی ہے، جس کے باعث وہ انسان خوف خدا کے جذبے کے تحت بے حیائی اور بداخلاقی جیسے ناشائستہ کام سے اپنے آپ کو بچا لیتا ہے اور برائی سے دور بھاگنے کی کوشش کرتا ہے، تو ایسے انسان کو حیادار کہا جاتا ہے۔ انسان کی شرافت، عزت اور پاک دامن کی بنیاد ہی حیاء پر ہے۔ جس آدمی میں یہ صفت جتنی زیادہ ہوگی وہ برائی اور گناہ کے کاموں سے اتنی زیادہ نفرت کرے گا اور احکام خداوندی اور اخلاقی اقدار کی پابندی کرے گا۔

    See less
    • 0