Discy Latest Questions

  1. جواب: حسن اخلاق: زندگی گذارنے میں دین کے اصول و ضوابط کو بجالانا، اوروں کو تکلیف دینے کے بجائے ان سے اچھا برتاؤ کرنا، خندہ پیشانی سے پیش آنا اور ان کی مالی مدد کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے سرانجام دیں تو یہ ”حسن اخلاق“ کہلاتا ہے۔

    جواب: حسن اخلاق: زندگی گذارنے میں دین کے اصول و ضوابط کو بجالانا، اوروں کو تکلیف دینے کے بجائے ان سے اچھا برتاؤ کرنا، خندہ پیشانی سے پیش آنا اور ان کی مالی مدد کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے سرانجام دیں تو یہ ”حسن اخلاق“ کہلاتا ہے۔

    See less
    • 0
  1. ترجمہ: ایک دن یا ایک رات جہاد میں بسر کرنا ایک مہینے کے روزے اور نفلی عبادت سے بہتر ہے۔ تشریح: اس حدیث میں اسلامی ریاست کی سرحدوں کی حفاظت کرنے کی فضیلت و اہمیت بیان کی گئی ہے کہ مورچہ بند ہو کر ملکی سرحدوں کی حفاظت و نگرانی کرنا بھی جہاد شمار کیا گیا ہے۔ اور ان تمام کاموں میں جو لوگ اللہ تعالیٰ کیRead more

    ترجمہ:

    ایک دن یا ایک رات جہاد میں بسر کرنا ایک مہینے کے روزے اور نفلی عبادت سے بہتر ہے۔

    تشریح:

    اس حدیث میں اسلامی ریاست کی سرحدوں کی حفاظت کرنے کی فضیلت و اہمیت بیان کی گئی ہے کہ مورچہ بند ہو کر ملکی سرحدوں کی حفاظت و نگرانی کرنا بھی جہاد شمار کیا گیا ہے۔ اور ان تمام کاموں میں جو لوگ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے سرانجام دیتے ہیں، ایسے مجاہدین اور اسلامی ممالک کے جانبازوں کے لیے بڑا اجر و ثواب ہے، چنانچہ اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ مورچہ بند اسلامی مجاہد اگر ایک دن یا ایک رات سرحدوں کا دفاع کرتے ہیں تو ان کو مہینہ بھر دن کے روزوں اور راتوں کے تہجد سے بہتر ثواب ملتا ہے۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہئے کہ ہم اعلاء کلمۃاللہ کے لیے جہاد، وطن اور وطن کی سرحدوں کی حفاظت کے جذبہ سے سرشار ہوں۔ تاکہ اسلام، ملک اور وطن پر کوئی میلی آنکھ سے نہ دیکھ سکے اور دین کا اعزاز بھی قائم رہے، اسی میں ہی فلاح دارین ہے۔

    See less
    • 0
  1. ترجمہ: تم سب نگران ہو اور تم سے تمہاری نگرانی میں موجود افراد اور رعایا کے بارے میں باز پرس ہوگی۔ تشریح: اس حدیث میں ہر آدمی کو نگران قرار دیا گیا ہے۔نگران ہر وہ آدمی ہے جس کو سماجی طور پر یا دنیاوی اعتبار سے کچھ امور کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے اور اس کے ماتحت رہنے والے محکوم افراد کو رعیت کہا جاتاRead more

    ترجمہ:

    تم سب نگران ہو اور تم سے تمہاری نگرانی میں موجود افراد اور رعایا کے بارے میں باز پرس ہوگی۔

    تشریح:

    اس حدیث میں ہر آدمی کو نگران قرار دیا گیا ہے۔نگران ہر وہ آدمی ہے جس کو سماجی طور پر یا دنیاوی اعتبار سے کچھ امور کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے اور اس کے ماتحت رہنے والے محکوم افراد کو رعیت کہا جاتا ہے۔ نگران کے فرائض منصبی میں سے یہ ہے کہ وہ ان کی تربیت و اصلاح کا ذمہ دار ہے۔ یعنی کہ ان میں سے ہر ایک کو ادب سکھائے اور ان کو ٹھیک حالت میں رکھے۔

    اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ قیامت کے دن ہر ایک آدمی اپنے اعمال کا حساب کتاب تو دے گا ہی، لیکن اگر کسی کے پاس دنیا میں کوئی عہدہ یا منصب یا ذمہ داری تھی تو اس کے ماتحتوں کے بارے میں بھی اس سے باز پرس ہوگی۔ چنانچہ بادشاہ سے اس کی پوری قوم کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ ان کے ساتھ انصاف کیا، ان کے حقوق پورےکیے، ان کے جان و مال کا تحفظ کیا یا نہیں۔ بیوی سے گھر کے متعلق، شوہر سے بیوی بچوں اور ان کی بہتر کفالت، تعلیم و تربیت کے متعلق،کوئی ملازم یا عہدیدارہے تو اس سے متعلقہ امور کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا۔ استاد سے کلاس میں شاگردوں کے متعلق باز پرس ہوگی، پھر اس کے جواب کے مطابق اس سے معاملہ ہوگا۔یہاں تک کہ ہر انسان سے اپنے اعضاءکےمتعلق بھی پوچھا جائے گا کہ ان کو کہاں پر استعمال کیا یا تو انعام کا حقدار ہوگا یا سزا کا۔ چنانچہ تمام لوگوں کو خبر دار کیا گیا ہےکہ اپنے ماتحتوں اور معاشرے کےکمزور لوگوں کے حقوق اہتمام سے سرا نجام دیں اور انکے حقوق پر دست اندازی سے پرہیز کریں۔

    See less
    • 0
  1. جواب: رمضان کے مہینے میں ہر عاقل، بالغ، مقیم اور تندرست آدمی پر روزےرکھنا فرض ہے۔

    جواب: رمضان کے مہینے میں ہر عاقل، بالغ، مقیم اور تندرست آدمی پر روزےرکھنا فرض ہے۔

    See less
    • 0
  1. جواب: حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: روزہ جہنم کی آگ سے ڈھال ہے۔(سنن نسائی)

    جواب: حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: روزہ جہنم کی آگ سے ڈھال ہے۔(سنن نسائی)

    See less
    • 0
  1. جواب: حضور اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ”اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر ہے: ۱)توحید و رسالت کی گواہی،۲) نماز قائم کرنا، ۳) زکوۃ ادا کرنا، ۴) روزے رکھان اور ۵) بیت اللہ کا حج کرنا۔“(متفق علیہ)۔ لہٰذا ہمیں پانچ وقت نماز کو اہتمام کے ساتھ خشوع و خضوع سے ادا کرنRead more

    جواب: حضور اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ”اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر ہے: ۱)توحید و رسالت کی گواہی،۲) نماز قائم کرنا، ۳) زکوۃ ادا کرنا، ۴) روزے رکھان اور ۵) بیت اللہ کا حج کرنا۔“(متفق علیہ)۔

    لہٰذا ہمیں پانچ وقت نماز کو اہتمام کے ساتھ خشوع و خضوع سے ادا کرنا چاہئے توکہ ہمارا اللہ تعالیٰ سے تعلق اور رابطہ مضبوط ہو اور قرب و رحمت خداوندی حاصل ہو۔

    See less
    • 0
  1. جواب: علم کی دو حیثیتیں ہیں: ۱) فرض عین: ہر آدمی چاہے مرد ہو یا عورت کو اتنا علم سیکھنا ہے، جس کے ذریعہ وہ عقیدہ کی ضروری باتیں، حلال و حرام، پاک و ناپاک اور اپنی ذمہ داریوں کی پہچان کر سکے۔ ۲) فرض کفایہ: دین کا مکمل علم حاصل کرنا اور دنیاوی علوم و فنون کا حصول فرض کفایہ ہے۔ چنانچہ اس حدیث میں انفراRead more

    جواب: علم کی دو حیثیتیں ہیں:

    ۱) فرض عین: ہر آدمی چاہے مرد ہو یا عورت کو اتنا علم سیکھنا ہے، جس کے ذریعہ وہ عقیدہ کی ضروری باتیں، حلال و حرام، پاک و ناپاک اور اپنی ذمہ داریوں کی پہچان کر سکے۔

    ۲) فرض کفایہ: دین کا مکمل علم حاصل کرنا اور دنیاوی علوم و فنون کا حصول فرض کفایہ ہے۔ چنانچہ اس حدیث میں انفرادی اور اجتماعی طور پر علم کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ اس میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی شامل ہیں تاکہ وہ آئندہ کے نسلوں کی تربیت اسلامی خطوط پر کریں تاکہ اسلام کا مطلوب صالح معاشرہ تکمیل پا سکے۔

    لہٰذا ہمیں علم حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ اس کے ذریعہ مفید اشیاء کو حاصل کریں اور مضر چیزوں سے اجتناب کریں تاکہ فلاح دارین حاصل کرسکیں۔

    See less
    • 0